Nawabi Attitude Poetry In Urdu

 Nawabi Attitude Poetry In Urdu


Shoq ho milny ka to chaly aana nawabi dialogue in urdu


   • Full Attitude


Nawabi Attitude Poetry In Urdu
Attitude poetry

Shoq ho milny ka to chaly aana

Meri ek hi pahchan hay

"Murshid"

Sharabi aankhy , Udass chehra, Nawabi Adtyin


شوق ہو ملنے کا تو چلے آنا میری ایک ہی پہچان ہے "مُرشد" شرابی آنکھیں ، اُداس چہرہ ، نوابی عادتیں


 • Attitude Poetry


SunOo pagli jitny tery gall ghulabi hain

Utny mery style Nawabi hain


سنو پگلی جتنے تیرے گال گُلابی ہیں

اتنے میرے سٹائل نوابی ہیں



Nawabi Attitude Poetry In Urdu


 

منافق لوگوں کے ذہن میں سوال بن کر رہیں گے

الحمداللہ نواب ہیں اور انشاءاللہ نواب بن کر رہیں گے



attitude poetry


نوابی میری اپنی جگہ جناب مگر

قدر کرتی ہوں قدر کرنے والوں کی



attitude poetry


ہم نے نوابوں کے اوپر نوابی کرکے جینا سیکھا ہے مُرشد

کل کے لونڈے اُٹھ کر اپنے آپکو سرکار بولتے ہیں


  • Boys Attitude


attitude poetry


نظروں میں ہر ادا نوابی رکھتی ہوں

نخرا کمال کا رکھتی ہوں

جو مجھ سے الجھے گا

اس کے ہر سوال کا جواب رکھتی ہوں



ہمیں ہم جیسے ہی پسند ہیں جانی

تم نواب ہو تو گھر بیٹھو


attitude poetry


ہم دل کے نواب لوگ ہیں صاحب

نہ محبت بدلتے ہیں نہ یار



attitude poetry


خرید تو لینا تھا ہم نے بھی محبوب اپنا

دل تو بڑا نواب تھا پر مُقدر ہی غریب نکلا


  • Girls Attitude



attitude poetry


نواب تھے نوابی شوق تھا میرا

فقیر ہوئے فقط اِک یار کی خاطر



attitude poetry


غلامی تو صرف تیری محبت کی کرتے ھیں

ورنہ تیرا یار کل بھی نواب تھا آج بھی نواب ھے





کہ غلامی کریں گے تو

صرف یاروں کی

ورنہ لوگوں کے لیے

ہم کل بھی نواب تھے

آج بھی نواب ہیں



Kameeny jaldi aaya karo na nawab zada poetry


Kiya batao bachpan ki Nawabi ki batain

School ki madam bhi subha kehti thi

Kameeny jaldi aaya karo na


کیا بتاؤں بچپن کی نوابی کی باتیں

سکول کی میڈم بھی صبح کہتی تھی

کمینے جلدی آیا کرو نا




Nawabi shamil mery khoon mein thi

Pata nahi ye dil ghulaami kaisy karny laga


نوابی شامل میرے خون میں تھی

پتہ نہیں یہ دل غلامی کیسے کرنے لگا



Jahan pe tumhari badmashi khatm hoti hay

Waha se hamari Nawabi shuru hoti hay


جہاں پہ تمہاری بدمعاشی ختم ہوتی ہے

وہاں سے ہماری نوابی شروع ہوتی ہے




تمہارے شہر میں تو نواب ہزاروں ہوں گے

لیکن ہمارے شہر میں ہم جیسا کوئی نہیں





بڑے غرور سے اس نے کہا بھول جاؤ ہمیں

ہم بھی بڑے نواب تھے کش لگا کر کہا کون ہو تم





ہم غلامی کرتے ہیں اپنے یاروں کی

دنیا کے لئے کل بھی نواب تھے آج بھی نواب ہیں






جُھکتا نہیں یہ سر کسی نواب کے آگے

ہم اپنی غریبی میں بھی امیری کی ادا رکھتے ہیں






زندگی بھر اپنے آپ کو نواب سمجھتا رہا

احساس تب ہوا جب ایک شخص کو مانگا فقیر کی طرح





نواب زادی ہوں اپنے بابا کی

اکڑ اور گھمنڈ دونوں ہی مجھ کو وراثت میں ملے ہیں





ہم ایسے شہزادے ہیں

جنہیں عشق کا شوق نہیں

ورنہ بہت سی نواب زادیاں

دل میں محبت لیے بیٹھی ہیں





ہم اپنی ریاست کے نواب لوگ

تیرے معیار کے محتاج نہیں



 


جس طرح ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا

اسی طرح ہر انسان ہماری طرح نواب نہیں ہوتا







ہمارے دشمن جلتے ہیں ہم سے ہمارے نوابی انداز سے مُرشد

کیوں کہ ہم دوستی بھی کرتے ہیں محبت کے انداز سے






کردار نوابی ہو تو کہانی عظیم ہوتی ہے

دیکھ ان آنکھوں میں خدا کے سوا کسی کا ڈر نہیں






نوابی تو ہمارے خون میں شامل ہے

غلامی تو ہم اپنے دل کی بھی نہیں کرتے






ہماری نوابی ہی ہماری نشانی ہے

آؤ حویلی پہ جس کو پریشانی ہے 





نوابی اگر آپ نے مجھے لاکھوں میں چنا ہے تو وعدہ ہے میرا

آپ کو کروڑوں کی بھیڑ میں کھونے نہیں دوں گا





مت پوچھ مجھ سے میری نوابی کا عالم

میری سادگی بھی تیرے حسن سے مہنگی ہو گی






عادتیں بری نہیں جناب بس شوق ذرا نوابی ہے





توں اپنڑی اکڑ سانبھ کے رکھ

ساڈی اپنڑی ٹھاٹھ نوابی اے





نہ نوابی چھوڑیں گے نہ جینا چھوڑیں گے

میدان میں آؤ تمہارا غرور ہم ہی توڑیں گے





نوابی تو ہمارے خون میں شامل ہے

غلامی تو ہم اپنے دل کی بھی نہیں کرتے





یہ زلفوں کے کنڈل __ یہ آنکھیں شرابی

یہ ہونٹوں کی سرخی __ پہ آنچل گُلابی

یہ آنکھوں سے باتیں __ زلفوں سے راتیں

یہ لہجہ ہے قاتل __ یہ ادائیں نوابی

یہ باتوں کی اُلجھن __ یہ چہرے پہ ناگن

یہ سارے ہیں قصے __ یہ باتیں کتابی

وہ سب سے جُدا __ دل جس پہ فدا

وہ سب سے الگ ہے __ وہ گوہر نایابی


  Read More....